منافقت کا نصاب پڑھ کر محبتوں کی کتاب لکھنا
بہت کٹھن ہے خزاں کے ماتھے پہ داستان گلاب لکھنا
میں جب چلوں گا تو ریگزاروں میں الفتوں کے کنول کھلیں گے
ہزار تم میرے راستوں میں محبتوں کے سراب لکھنا
فراق موسم کی چلمنوں سے وصال لمحے چمک اٹھیں گے
اداس شاموں میں کاغذ دل پہ گزرے وقتوں کے باب لکھنا
وہ میری خواہش کی لوح تشنہ پہ زندگی کے سوال ابھرنا
وہ اس کا حرف کرم سے اپنے قبولیت کے جواب لکھنا
گئے زمانوں کی درد کجلائی بھولی بسری کتاب پڑھ کر
جو ہو سکے تم سے آنے والے دنوں کے رنگین خواب لکھنا
غزل
منافقت کا نصاب پڑھ کر محبتوں کی کتاب لکھنا
آفتاب حسین