جب سفر سے لوٹ کر آنے کی تیاری ہوئی
بے تعلق تھی جو شے وہ بھی بہت پیاری ہوئی
چار سانسیں تھیں مگر سینے کو بوجھل کر گئیں
دو قدم کی یہ مسافت کس قدر بھاری ہوئی
ایک منظر ہے کہ آنکھوں سے سرکتا ہی نہیں
ایک ساعت ہے کہ ساری عمر پر طاری ہوئی
اس طرح چالیں بدلتا ہوں بساط دہر پر
جیت لوں گا جس طرح یہ زندگی ہاری ہوئی
کن طلسمی راستوں میں عمر کاٹی آفتابؔ
جس قدر آساں لگا اتنی ہی دشواری ہوئی

غزل
جب سفر سے لوٹ کر آنے کی تیاری ہوئی
آفتاب حسین