تیری خوشبو کا تراشا ہے یہ پیکر کس نے
کر دیا ہے مرا ماحول معطر کس نے
آسماں ہمت پرواز سے کچھ دور نہیں
اس تمنا کے مگر کاٹ لئے پر کس نے
ناسمجھ قطرۂ ناچیز کی وقعت کو سمجھ
تو سمندر ہے بنایا ہے سمندر کس نے
کس کی پازیب کا سنگیت ہے ہستی میری
پاؤں سے باندھ لیا میرا مقدر کس نے
پرتو حسن ہے ناہید گزر گاہ خیال
سر پہ رکھی ہے چھلکتی ہوئی گاگر کس نے
خوشنما دائرے بنتے ہی چلے جاتے ہیں
دل کے تالاب میں پھینکا ہے یہ کنکر کس نے
تو میرا دوست سہی یار مگر یہ تو بتا
وقت یہ دھوکہ دیا ہے مجھے اکثر کس نے
دفعتاً کس نے جگا دی مری سوئی قسمت
میرا منہ چوم لیا خواب میں افسرؔ کس نے
غزل
تیری خوشبو کا تراشا ہے یہ پیکر کس نے
افسر آذری