EN हिंदी
تمہارے ہجر میں کیوں زندگی نہ مشکل ہو | شیح شیری
tumhaare hijr mein kyun zindagi na mushkil ho

غزل

تمہارے ہجر میں کیوں زندگی نہ مشکل ہو

افسر الہ آبادی

;

تمہارے ہجر میں کیوں زندگی نہ مشکل ہو
تمہیں جگر ہو تمہیں جان ہو تمہیں دل ہو

عجب نہیں کہ اگر آئینہ مقابل ہو
تمہاری تیغ ادا خود تمہاری قاتل ہو

نہ اختلاف مذاہب کے پھر پڑیں جھگڑے
حجاب اپنی خودی کا اگر نہ حائل ہو

تمہاری تیغ ادا کا فسانہ سنتا ہوں
مجھے تو قتل کرو دیکھوں تو کیسے قاتل ہو

ہماری آنکھ کے پردے میں تم چھپو دیکھو
تمہاری ایسی ہو لیلیٰ تو ایسا محمل ہو

یہ عرض روز جزا ہم کریں گے داور سے
کہ خوں بہا میں ہمارے حوالے قاتل ہو

اسی نظر سے ہے نور نگاہ مد نظر
مجھے حبیب کا دیدار تاکہ حاصل ہو

حبیب کیوں نہ ہو صورت بھی اچھی سیرت بھی
ہر ایک امر میں تم رشک ماہ کامل ہو

غضب یہ ہے کہ عدو کا جھوٹ سچ ٹھہرے
ہم ان سے حق بھی کہیں تو گمان باطل ہو

مزا چکھاؤں تمہیں اس ہنسی کا رونے پر
خدا کرے کہیں تم دل سے مجھ پہ مائل ہو

تمہارے لب تو ہیں جان مسیح و آب بقا
یہ کیا زمانے میں مشہور ہے کہ قاتل ہو

تمہاری دید سے سیراب ہو نہیں سکتا
کہ شکل آئنہ منہ دیکھنے کے قابل ہو

اسی رفیق سے غفلت ہے آہ اے افسرؔ
تمہارے کام سے جو ایک دم نہ غافل ہو