وحشتؔ سخن و لطف سخن اور ہی شے ہے
دیوان میں یاروں کے تو اشعار بہت ہیں
وحشتؔ رضا علی کلکتوی
وحشتؔ اس بت نے تغافل جب کیا اپنا شعار
کام خاموشی سے میں نے بھی لیا فریاد کا
وحشتؔ رضا علی کلکتوی
وہ کام میرا نہیں جس کا نیک ہو انجام
وہ راہ میری نہیں جو گئی ہو منزل کو
وحشتؔ رضا علی کلکتوی
یہاں ہر آنے والا بن کے عبرت کا نشاں آیا
گیا زیر زمیں جو کوئی زیر آسماں آیا
وحشتؔ رضا علی کلکتوی
ظالم کی تو عادت ہے ستاتا ہی رہے گا
اپنی بھی طبیعت ہے بہلتی ہی رہے گی
وحشتؔ رضا علی کلکتوی
زبردستی غزل کہنے پہ تم آمادہ ہو وحشتؔ
طبیعت جب نہ ہو حاضر تو پھر مضمون کیا نکلے
وحشتؔ رضا علی کلکتوی
زمانہ بھی مجھ سے نا موافق میں آپ بھی دشمن سلامت
تعجب اس کا ہے بوجھ کیونکر میں زندگی کا اٹھا رہا ہوں
وحشتؔ رضا علی کلکتوی
زمیں روئی ہمارے حال پر اور آسماں رویا
ہماری بیکسی کو دیکھ کر سارا جہاں رویا
وحشتؔ رضا علی کلکتوی
زندگی اپنی کسی طرح بسر کرنی ہے
کیا کروں آہ اگر تیری تمنا نہ کروں
وحشتؔ رضا علی کلکتوی