دل کے کہنے پہ چلوں عقل کا کہنا نہ کروں
میں اسی سوچ میں ہوں کیا کروں اور کیا نہ کروں
زندگی اپنی کسی طرح بسر کرنا ہے
کیا کروں آہ اگر تیری تمنا نہ کروں
مجلس وعظ میں کیا میری ضرورت ناصح
گھر میں بیٹھا ہوا شغل مے و مینا نہ کروں
مست ہے حال میں دل بے خیر مستقبل
سوچتا ہوں اسے ہشیار کروں یا نہ کروں
کس طرح حسن زباں کی ہو ترقی وحشتؔ
میں اگر خدمت اردوئے معلیٰ نہ کروں
غزل
دل کے کہنے پہ چلوں عقل کا کہنا نہ کروں
وحشتؔ رضا علی کلکتوی