یہاں ہر آنے والا بن کے عبرت کا نشاں آیا
گیا زیر زمیں جو کوئی زیر آسماں آیا
نہ ہو گرم اس قدر اے شمع اس میں تیرا کیا بگڑا
اگر جلنے کو اک پروانۂ آتش بجاں آیا
خدا جانے ملا کیا مجھ کو جا کر ان کی محفل میں
کہ باصد نامرادی بھی وہاں سے شادماں آیا
جمایا رنگ اپنا میں نے مٹ کر تیرے کوچے میں
یقین عشق میرا اب تو تجھ کو بدگماں آیا
نہ ہو آزردہ تو آزردگی کا کون موقع ہے
اگر محفل میں تیری وحشتؔ آزردہ جاں آیا
غزل
یہاں ہر آنے والا بن کے عبرت کا نشاں آیا
وحشتؔ رضا علی کلکتوی