نہیں ممکن لب عاشق سے حرف مدعا نکلے
جسے تم نے کیا خاموش اس سے کیا صدا نکلے
قیامت اک بپا ہے سینۂ مجروح الفت میں
نہ تیر دلنشیں نکلے نہ جان مبتلا نکلے
تمہارے خوگر بیداد کو کیا لطف کی حاجت
وفا ایسی نہ کرنا تم جو آخر کو جفا نکلے
گماں تھا کام دل اغیار تم سے پاتے ہیں لیکن
ہماری طرح وہ بھی کشتۂ تیغ جفا نکلے
زبردستی غزل کہنے پہ تم آمادہ ہو وحشتؔ
طبیعت جب نہ ہو حاضر تو پھر مضمون کیا نکلے
غزل
نہیں ممکن لب عاشق سے حرف مدعا نکلے
وحشتؔ رضا علی کلکتوی