EN हिंदी
جدا کریں گے نہ ہم دل سے حسرت دل کو | شیح شیری
juda karenge na hum dil se hasrat-e-dil ko

غزل

جدا کریں گے نہ ہم دل سے حسرت دل کو

وحشتؔ رضا علی کلکتوی

;

جدا کریں گے نہ ہم دل سے حسرت دل کو
عزیز کیوں نہ رکھیں زندگی کے حاصل کو

نہاں اگرچہ ہے محفل سے سوز دل میرا
مگر یہ راز ہے معلوم شمع محفل کو

وہ طول کھینچا بلا کا ترے تغافل نے
کہ صبر آ ہی گیا میرے مضطرب دل کو

کٹھن ہے کام تو ہمت سے کام لے اے دل
بگاڑ کام نہ مشکل سمجھ کے مشکل کو

وہ کام میرا نہیں جس کا نیک ہو انجام
وہ راہ میری نہیں جو گئی ہو منزل کو

خبر ہوئی نہ انہیں میرے مضطرب دل کی
غلط خیال ہے یہ دل سے راہ ہے دل کو

بلا کی ہوتی ہے وحشتؔ کی بھی غزل خوانی
کہ اک سرور سا ہوتا ہے اہل محمل کو