جدا کریں گے نہ ہم دل سے حسرت دل کو
عزیز کیوں نہ رکھیں زندگی کے حاصل کو
نہاں اگرچہ ہے محفل سے سوز دل میرا
مگر یہ راز ہے معلوم شمع محفل کو
وہ طول کھینچا بلا کا ترے تغافل نے
کہ صبر آ ہی گیا میرے مضطرب دل کو
کٹھن ہے کام تو ہمت سے کام لے اے دل
بگاڑ کام نہ مشکل سمجھ کے مشکل کو
وہ کام میرا نہیں جس کا نیک ہو انجام
وہ راہ میری نہیں جو گئی ہو منزل کو
خبر ہوئی نہ انہیں میرے مضطرب دل کی
غلط خیال ہے یہ دل سے راہ ہے دل کو
بلا کی ہوتی ہے وحشتؔ کی بھی غزل خوانی
کہ اک سرور سا ہوتا ہے اہل محمل کو
غزل
جدا کریں گے نہ ہم دل سے حسرت دل کو
وحشتؔ رضا علی کلکتوی