EN हिंदी
تلخی کش نومیدئ دیدار بہت ہیں | شیح شیری
talKHi-kash-e-naumidi-e-didar bahut hain

غزل

تلخی کش نومیدئ دیدار بہت ہیں

وحشتؔ رضا علی کلکتوی

;

تلخی کش نومیدئ دیدار بہت ہیں
اس نرگس بیمار کے بیمار بہت ہیں

عالم پہ ہے چھایا ہوا اک یاس کا عالم
یعنی کہ تمنا کے گرفتار بہت ہیں

اک وصل کی تدبیر ہے اک ہجر میں جینا
جو کام کہ کرنے ہیں وہ دشوار بہت ہیں

وہ تیرا خریدار قدیم آج کہاں ہے
یہ سچ ہے کہ اب تیرے خریدار بہت ہیں

محنت ہو مصیبت ہو ستم ہو تو مزا ہے
ملنا ترا آساں ہے طلب گار بہت ہیں

عشاق کی پرواہ نہیں خود تجھ کو وگرنہ
جی تجھ پہ فدا کرنے کو تیار بہت ہیں

وحشتؔ سخن و لطف سخن اور ہی شے ہے
دیوان میں یاروں کے تو اشعار بہت ہیں