EN हिंदी
جان اس کی اداؤں پر نکلتی ہی رہے گی | شیح شیری
jaan uski adaon par nikalti hi rahegi

غزل

جان اس کی اداؤں پر نکلتی ہی رہے گی

وحشتؔ رضا علی کلکتوی

;

جان اس کی اداؤں پر نکلتی ہی رہے گی
یہ چھیڑ جو چلتی ہے سو چلتی ہی رہے گی

ظالم کی تو عادت ہے ستاتا ہی رہے گا
اپنی بھی طبیعت ہے بہلتی ہی رہے گی

دل رشک عدو سے ہے سپند سر آتش
یہ شمع تری بزم میں جلتی ہی رہے گی

غمزہ ترا دھوکا یوں ہی دیتا ہی رہے گا
تلوار ترے کوچے میں چلتی ہی رہے گی

اک آن میں وہ کچھ ہیں تو اک آن میں کچھ ہیں
کروٹ مری تقدیر بدلتی ہی رہے گی

انداز میں شوخی میں شرارت میں حیا میں
واں ایک نہ اک بات نکلتی ہی رہے گی

وحشتؔ کو رہا انس جو یوں فن سخن سے
یہ شاخ ہنر پھولتی پھلتی ہی رہے گی