جان اس کی اداؤں پر نکلتی ہی رہے گی
یہ چھیڑ جو چلتی ہے سو چلتی ہی رہے گی
ظالم کی تو عادت ہے ستاتا ہی رہے گا
اپنی بھی طبیعت ہے بہلتی ہی رہے گی
دل رشک عدو سے ہے سپند سر آتش
یہ شمع تری بزم میں جلتی ہی رہے گی
غمزہ ترا دھوکا یوں ہی دیتا ہی رہے گا
تلوار ترے کوچے میں چلتی ہی رہے گی
اک آن میں وہ کچھ ہیں تو اک آن میں کچھ ہیں
کروٹ مری تقدیر بدلتی ہی رہے گی
انداز میں شوخی میں شرارت میں حیا میں
واں ایک نہ اک بات نکلتی ہی رہے گی
وحشتؔ کو رہا انس جو یوں فن سخن سے
یہ شاخ ہنر پھولتی پھلتی ہی رہے گی
غزل
جان اس کی اداؤں پر نکلتی ہی رہے گی
وحشتؔ رضا علی کلکتوی