EN हिंदी
زمیں روئی ہمارے حال پر اور آسماں رویا | شیح شیری
zamin roi hamare haal par aur aasman roya

غزل

زمیں روئی ہمارے حال پر اور آسماں رویا

وحشتؔ رضا علی کلکتوی

;

زمیں روئی ہمارے حال پر اور آسماں رویا
ہماری بیکسی کو دیکھ کر سارا جہاں رویا

میں جب نکلا چمن سے شبنم آب گلستاں رویا
اداسی چھا گئی ایسی خود آخر باغباں رویا

نہ آیا رحم کچھ بھی آہ دل میں اس ستم گر کے
ہماری جبہہ سائی کے اثر سے آستاں رویا

ہر اک عضو بدن ماتم کناں ہے دل کے جانے سے
ہوا یوسف جو گم تو کارواں کا کارواں رویا

خلل افگن تری بزم طرب میں کون ہو ظالم
ہوا کیا گر ترے کوچے میں کوئی تفتۂ جاں رویا

مرے آنسو تری بیداد کا پردہ نہ کھولیں گے
عبث یہ بدگمانی ہے میں کب رویا کہاں رویا

عدو خوش ہوں تو ہوں اے بے مروت تیری محفل میں
مرا تو حال یہ ہے جب کبھی آیا یہاں رویا

جفائے دشمناں اور بے وفائی ہائے یاراں سے
بہت غم دیدہ ہو کر وحشتؔ آزردہ جاں رویا