EN हिंदी
وحشتؔ رضا علی کلکتوی شیاری | شیح شیری

وحشتؔ رضا علی کلکتوی شیر

54 شیر

بزم میں اس بے مروت کی مجھے
دیکھنا پڑتا ہے کیا کیا دیکھیے

وحشتؔ رضا علی کلکتوی




بے جا ہے تری جفا کا شکوہ
مارا مجھ کو مری وفا نے

وحشتؔ رضا علی کلکتوی




چھپا نہ گوشہ نشینی سے راز دل وحشتؔ
کہ جانتا ہے زمانہ مرے سخن سے مجھے

وحشتؔ رضا علی کلکتوی




دل کو ہم کب تک بچائے رکھتے ہر آسیب سے
ٹھیس آخر لگ گئی شیشے میں بال آ ہی گیا

وحشتؔ رضا علی کلکتوی




دل توڑ دیا تم نے میرا اب جوڑ چکے تم ٹوٹے کو
وہ کام نہایت آساں تھا یہ کام بلا کا مشکل ہے

وحشتؔ رضا علی کلکتوی




آنکھ میں جلوہ ترا دل میں تری یاد رہے
یہ میسر ہو تو پھر کیوں کوئی ناشاد رہے

وحشتؔ رضا علی کلکتوی




دونوں نے کیا ہے مجھ کو رسوا
کچھ درد نے اور کچھ دوا نے

وحشتؔ رضا علی کلکتوی




گردن جھکی ہوئی ہے اٹھاتے نہیں ہیں سر
ڈر ہے انہیں نگاہ لڑے گی نگاہ سے

وحشتؔ رضا علی کلکتوی




ہم نے عالم سے بے وفائی کی
ایک معشوق بے وفا کے لیے

وحشتؔ رضا علی کلکتوی