کسی طرح دن تو کٹ رہے ہیں فریب امید کھا رہا ہوں
ہزارہا نقش آرزو کے بنا رہا ہوں مٹا رہا ہوں
وفا مری معتبر ہے کتنی جفا وہ کر سکتے ہیں کہاں تک
جو وہ مجھے آزما رہے ہیں تو میں انہیں آزما رہا ہوں
کسی کی محفل کا نغمۂ نے محرک نالہ و فغاں ہے
فسانۂ عیش سن رہا ہوں فسانۂ غم سنا رہا ہوں
زمانہ بھی مجھ سے نا موافق میں آپ بھی دشمن سلامت
تعجب اس کا ہے بوجھ کیونکر میں زندگی کا اٹھا رہا ہوں
نہ ہو مجھے جستجوئے منزل مگر ہے منزل مری طلب میں
کوئی تو مجھ کو بلا رہا ہے کسی طرف کو تو جا رہا ہوں
یہی تو ہے نفع کوششوں کا کہ کام سارے بگڑ رہے ہیں
یہی تو ہے فائدہ ہوس کا کہ اشک حسرت بہا رہا ہوں
خدا ہی جانے یہ سادہ لوحی دکھائے گی کیا نتیجہ وحشتؔ
وہ جتنی الفت گھٹا رہے ہیں اسی قدر میں بڑھا رہا ہوں
غزل
کسی طرح دن تو کٹ رہے ہیں فریب امید کھا رہا ہوں
وحشتؔ رضا علی کلکتوی