بے جا ہے تری جفا کا شکوہ
مارا مجھ کو مری وفا نے
وحشتؔ رضا علی کلکتوی
آنکھ میں جلوہ ترا دل میں تری یاد رہے
یہ میسر ہو تو پھر کیوں کوئی ناشاد رہے
وحشتؔ رضا علی کلکتوی
بڑھا ہنگامۂ شوق اس قدر بزم حریفاں میں
کہ رخصت ہو گیا اس کا حجاب آہستہ آہستہ
وحشتؔ رضا علی کلکتوی
بڑھ چلی ہے بہت حیا تیری
مجھ کو رسوا نہ کر خدا کے لیے
وحشتؔ رضا علی کلکتوی
عزیز اگر نہیں رکھتا نہ رکھ ذلیل ہی رکھ
مگر نکال نہ تو اپنی انجمن سے مجھے
وحشتؔ رضا علی کلکتوی
اور عشرت کی تمنا کیا کریں
سامنے تو ہو تجھے دیکھا کریں
وحشتؔ رضا علی کلکتوی
اے مشعل امید یہ احسان کم نہیں
تاریک شب کو تو نے درخشاں بنا دیا
وحشتؔ رضا علی کلکتوی
اے اہل وفا خاک بنے کام تمہارا
آغاز بتا دیتا ہے انجام تمہارا
وحشتؔ رضا علی کلکتوی
ابھی ہوتے اگر دنیا میں داغؔ دہلوی زندہ
تو وہ سب کو بتا دیتے ہے وحشتؔ کی زباں کیسی
وحشتؔ رضا علی کلکتوی