ہر چند وحشتؔ اپنی غزل تھی گری ہوئی
محفل سخن کی گونج اٹھی واہ واہ سے
وحشتؔ رضا علی کلکتوی
اس زمانے میں خموشی سے نکلتا نہیں کام
نالہ پر شور ہو اور زوروں پہ فریاد رہے
وحشتؔ رضا علی کلکتوی
جو گرفتار تمہارا ہے وہی ہے آزاد
جس کو آزاد کرو تم کبھی آزاد نہ ہو
وحشتؔ رضا علی کلکتوی
کٹھن ہے کام تو ہمت سے کام لے اے دل
بگاڑ کام نہ مشکل سمجھ کے مشکل کو
وحشتؔ رضا علی کلکتوی
خاک میں کس دن ملاتی ہے مجھے
اس سے ملنے کی تمنا دیکھیے
وحشتؔ رضا علی کلکتوی
خیال تک نہ کیا اہل انجمن نے ذرا
تمام رات جلی شمع انجمن کے لیے
وحشتؔ رضا علی کلکتوی
کس طرح حسن زباں کی ہو ترقی وحشتؔ
میں اگر خدمت اردوئے معلیٰ نہ کروں
وحشتؔ رضا علی کلکتوی
کچھ سمجھ کر ہی ہوا ہوں موج دریا کا حریف
ورنہ میں بھی جانتا ہوں عافیت ساحل میں ہے
وحشتؔ رضا علی کلکتوی
مجال ترک محبت نہ ایک بار ہوئی
خیال ترک محبت تو بار بار کیا
وحشتؔ رضا علی کلکتوی