EN हिंदी
دیکھتے سجدے میں آتا ہے جو کرتا ہے نگاہ | شیح شیری
dekhte sajde mein aata hai jo karta hai nigah

غزل

دیکھتے سجدے میں آتا ہے جو کرتا ہے نگاہ

شیخ ظہور الدین حاتم

;

دیکھتے سجدے میں آتا ہے جو کرتا ہے نگاہ
تیرے ابرو کی ہے محراب مگر بیت اللہ

یک پلک میں وہ کرے پیس کے فوجیں سرمہ
جس طرف کو پھرے ظالم تری مژگاں کی سپاہ

بیت بحثی نہ کر اے فاختہ گلشن میں کہ آج
مصرع سرو سے موزوں ہے مرا مصرع آہ

کشور عشق کی شاہی ہے مگر مجنوں کو
کہ زمیں تخت ہے سر پر ہے بگولے کی کلاہ

کیوں کر ان کالی بلاؤں سے بچے گا عاشق
خط سیہ خال سیہ زلف سیہ چشم سیاہ

چاہتا ہے شب زلفاں کی تری عمر دراز
کہ مرے عشق کا ہووے نہیں قصہ کوتاہ

کیا کہے کیونکہ کہے تجھ سے یہ حاتمؔ غم دل
کہ وہ ہے شرم سے محجوب و تو ہے بے پرواہ