EN हिंदी
اٹھیں آنکھیں اگر آہٹ سنی ہے | شیح شیری
uThin aankhen agar aahaT suni hai

غزل

اٹھیں آنکھیں اگر آہٹ سنی ہے

شہزاد احمد

;

اٹھیں آنکھیں اگر آہٹ سنی ہے
صدا تصویر بننا چاہتی ہے

ابھی گزرا نہیں رخصت کا لمحہ
وہ ساعت آنکھ میں ٹھہری ہوئی ہے

ابھی لوٹا نہیں دن کا مسافر
اندھیرا ہو چکا کھڑکی کھلی ہے

ابھی سر پر ہے تنہائی کا سورج
مری آنکھوں میں دنیا جاگتی ہے

اگر گزرا نہیں وہ اس طرف سے
یہ حیرت کس نے دیواروں کو دی ہے

مرے چہرے کی رونق عہد ماضی
یہ سرخی کل کے اخباروں سے لی ہے

بہت شرمندہ ہوں ابلیس سے میں
خطا میری سزا اس کو ملی ہے

بہا کر لے گیا سیلاب سب کچھ
فقط آنکھوں کی ویرانی بچی ہے

کہاں تک بوجھ اٹھائے گی ہمارا
یہ دھرتی بھی تو بوڑھی ہو چکی ہے

نہ آئے گی ہوا کو نیند کیوں کر
زمانوں کی تھکی ہاری ہوئی ہے

بس اب بجھنے کو ہے سورج کی قندیل
جہاں تک جل سکی جلتی رہی ہے

زبانیں تھک چکیں پتھر ہوئے کان
کہانی ان کہی تھی ان کہی ہے

مکیں شہزادؔ پیاسے مر رہے ہیں
در و دیوار پر کائی اگی ہے