خلق نے چھین لی مجھ سے مری تنہائی تک
عشق آ پہنچا ہے الزام سے رسوائی تک
کھول رکھا ہے یہ دروازۂ دل تیرے لیے
کاش تو دیکھ سکے روح کی گہرائی تک
کیوں ہوں میں اور مرے غم کا اسے احساس کہاں
ہے ملاقات فقط انجمن آرائی تک
یوں تو ہم اہل نظر ہیں مگر انجام یہ ہے
ڈھونڈتے ڈھونڈتے کھو دیتے ہیں بینائی تک
کھل گئے وہ تو کھلا اپنی محبت کا بھرم
ولولے دل میں ہزاروں تھے شناسائی تک
ڈوبنا اپنا مقدر تھا مگر ظلم ہے یہ
بہہ گئے ایک ہی ریلے میں تماشائی تک
خشک مٹی پہ بھی گرتا نہیں پتا کوئی
خامشی وہ ہے کہ چلتی نہیں پروائی تک
شہر میں اہل جفا اہل ریا رہتے ہیں
یہ ہوا کاش نہ پہنچے ترے سودائی تک
اپنے انجام پہ خود روئے گی شمع محفل
چھوڑ جائیں گے اسے اس کے تمنائی تک
ہم نے بھی دشت نوردی تو بہت کی شہزادؔ
ہاتھ پہنچا نہ کسی لالۂ صحرائی تک
غزل
خلق نے چھین لی مجھ سے مری تنہائی تک
شہزاد احمد