ہر طرف سطوت ارژنگ دکھائی دے گی
رنگ برسیں گے زمیں دنگ دکھائی دے گی
بارش خون شہیداں سے وہ آئے گی بہار
ساری دھرتی ہمیں گل رنگ دکھائی دے گی
پربتوں سے نکل آئیں گے تھرکتے پیکر
نغمہ زن، خامشیٔ سنگ دکھائی دے گی
راز میں رہ نہ سکے گی کوئی اظہار کی لے
اک نہ اک صورت آہنگ دکھائی دے گی
سوچ کو جرأت پرواز تو مل لینے دو
یہ زمیں اور ہمیں تنگ دکھائی دے گی
تاج کانٹوں کا سہی ایک نہ اک دن لیکن
عاشقی زینت اورنگ دکھائی دے گی
جب بھی پرکھے گا کوئی پیار کے معیار قتیلؔ
ساری دنیا مرے پاسنگ دکھائی دے گی
غزل
ہر طرف سطوت ارژنگ دکھائی دے گی
قتیل شفائی