کیا ہے پیار جسے ہم نے زندگی کی طرح
وہ آشنا بھی ملا ہم سے اجنبی کی طرح
کسے خبر تھی بڑھے گی کچھ اور تاریکی
چھپے گا وہ کسی بدلی میں چاندنی کی طرح
بڑھا کے پیاس مری اس نے ہاتھ چھوڑ دیا
وہ کر رہا تھا مروت بھی دل لگی کی طرح
ستم تو یہ ہے کہ وہ بھی نہ بن سکا اپنا
قبول ہم نے کیے جس کے غم خوشی کی طرح
کبھی نہ سوچا تھا ہم نے قتیلؔ اس کے لیے
کرے گا ہم پہ ستم وہ بھی ہر کسی کی طرح
غزل
کیا ہے پیار جسے ہم نے زندگی کی طرح
قتیل شفائی