EN हिंदी
فسردگی کا مداوا کریں تو کیسے کریں | شیح شیری
fasurdagi ka mudawa karen to kaise karen

غزل

فسردگی کا مداوا کریں تو کیسے کریں

قتیل شفائی

;

فسردگی کا مداوا کریں تو کیسے کریں
وہ لوگ جو ترے قرب جمال سے بھی ڈریں

اک ایسی راہ پہ ڈالا ہے تیرے غم نے کہ ہم
کسی بھی شکل کو دیکھیں تو رک کے آہ بھریں

یہ کیا کہ بے سبب آئے قضا جوانی میں
یہ کیوں نہ ہو کہ تمہاری کسی ادا پہ مریں

شب الم کے بھی ہوتے ہیں کچھ نہ کچھ آداب
تڑپنے والے سحر تک تو انتظار کریں

اس ایک بات کے بعد اب ہزار بات کرو
یہ دل کے زخم ہیں یارو بھریں بھریں نہ بھریں

ثبوت عشق کی یہ بھی تو ایک صورت ہے
کہ جس سے پیار کریں اس پہ تہمتیں بھی دھریں

کچھ ایسے دوست بھی میری نگاہ میں ہیں قتیلؔ
کہ مجھ کو باز رکھیں جس سے خود اسی پہ مریں