اسی حور کی رنگت اڑی رونے سے ہمارے
رنگ گل فردوس بھی کچا نظر آیا
منیرؔ شکوہ آبادی
استاد کے احسان کا کر شکر منیرؔ آج
کی اہل سخن نے تری تعریف بڑی بات
منیرؔ شکوہ آبادی
وہاں پہنچ نہیں سکتیں تمہاری زلفیں بھی
ہمارے دست طلب کی جہاں رسائی ہے
منیرؔ شکوہ آبادی
وحشت میں بسر ہوتے ہیں ایام شباب آہ
یہ شام جوانی ہے کہ سایہ ہے ہرن کا
منیرؔ شکوہ آبادی
ورد اسم ذات کھولا چاہتا ہے یہ گرہ
میرے دل پر دانت ہے اللہ کی تشدید کا
منیرؔ شکوہ آبادی
یاد اس بت کی نمازوں میں جو آئی مجھ کو
تپش شوق سے ہر بار میں بیٹھا اٹھا
منیرؔ شکوہ آبادی
زاہدو پوجا تمہاری خوب ہوگی حشر میں
بت بنا دے گی تمہیں یہ حق پرستی ایک دن
منیرؔ شکوہ آبادی
زندۂ جاوید ہیں مارا جنہیں اس شوخ نے
بر طرف جو ہو گئے ان کی بحالی ہو گئی
منیرؔ شکوہ آبادی