اس بت کے نہانے سے ہوا صاف یہ پانی
موتی بھی صدف میں تہہ دریا نظر آیا
منیرؔ شکوہ آبادی
الجھا ہے مگر زلف میں تقریر کا لچھا
سلجھی ہوئی ہم نے نہ سنی بات تمہاری
منیرؔ شکوہ آبادی
ترے کوچے سے جدا روتے ہیں شب کو عاشق
آج کل بارش شبنم ہے چمن سے باہر
منیرؔ شکوہ آبادی
تیری فرقت میں شراب عیش کا توڑا ہوا
جام مے دست سبو کے واسطے پھوڑا ہوا
منیرؔ شکوہ آبادی
تیغ ابرو کے مجھے زخم کہن یاد آئے
ماہ نو کو بھی میں تلوار پرانی سمجھا
منیرؔ شکوہ آبادی
سختیٔ دہر ہوئے بحر سخن میں آساں
قافیے آئے جو پتھر کے میں پانی سمجھا
منیرؔ شکوہ آبادی
صدمہ سے بال شیشۂ گردوں میں پڑ گیا
تم نے دکھائی کوٹھے پر اپنی کمر کسے
منیرؔ شکوہ آبادی
صبر کب تک راہ پیدا ہو کہ اے دل جان جائے
ایک ٹکر مار کر سر پھوڑ یا دیوار توڑ
منیرؔ شکوہ آبادی
سرسوں جو پھولی دیدۂ جام شراب میں
بنت العنب سے کرنے لگا شوخیاں بسنت
منیرؔ شکوہ آبادی