EN हिंदी
منیرؔ  شکوہ آبادی شیاری | شیح شیری

منیرؔ  شکوہ آبادی شیر

107 شیر

آنکھیں خدا نے بخشی ہیں رونے کے واسطے
دو کشتیاں ملی ہیں ڈبونے کے واسطے

منیرؔ  شکوہ آبادی




آنکھوں میں کھٹکتی ہی رہی دولت دنیا
ہر سکے کی مچھلی میں بھی کانٹا نظر آیا

منیرؔ  شکوہ آبادی




آنکھوں میں نہیں سلسلۂ اشک شب و روز
تسبیح پڑھا کرتے ہیں دن رات تمہاری

منیرؔ  شکوہ آبادی




عاشق بنا کے ہم کو جلاتے ہیں شمع رو
پروانہ چاہئے انہیں پروانہ چاہئے

منیرؔ  شکوہ آبادی




آستین صبر سے باہر نہ نکلے گا اگر
ہوگی دست غیب کی صورت ہمارے ہاتھ میں

منیرؔ  شکوہ آبادی




آتے نہیں ہیں دیدہ گریاں کے سامنے
بادل بھی کرتے ہیں مری برسات کا لحاظ

منیرؔ  شکوہ آبادی




اب کے بہار حسن بتاں ہے کمال پر
ناقوس ہو نہ جائے کف برہمن میں پھول

منیرؔ  شکوہ آبادی




اے بت یہ ہے نماز کہ ہے گھات قتل کی
نیت ادا کی ہے کہ اشارے قضا کے ہیں

منیرؔ  شکوہ آبادی




اے رشک ماہ رات کو مٹھی نہ کھولنا
مہدی کا چور ہاتھ سے جائے نہ چھوٹ کے

منیرؔ  شکوہ آبادی