سلسلہ گبرو مسلماں کی عداوت کا مٹا
اے پری بے پردہ ہو کر سبحۂ زنار توڑ
منیرؔ شکوہ آبادی
سنتی ہے روز نغمۂ زنجیر عاشقاں
وہ زلف بھی ہے سلسلۂ اہل چشت میں
منیرؔ شکوہ آبادی
سرخی شفق کی زرد ہو گالوں کے سامنے
پانی بھرے گھٹا ترے بالوں کے سامنے
منیرؔ شکوہ آبادی
تعریف روز لیتے ہو اپنے غرور کی
مجھ کو برہمن بت پندار کر دیا
منیرؔ شکوہ آبادی
تیغ ابرو کے مجھے زخم کہن یاد آئے
ماہ نو کو بھی میں تلوار پرانی سمجھا
منیرؔ شکوہ آبادی
تیری فرقت میں شراب عیش کا توڑا ہوا
جام مے دست سبو کے واسطے پھوڑا ہوا
منیرؔ شکوہ آبادی
ترے کوچے سے جدا روتے ہیں شب کو عاشق
آج کل بارش شبنم ہے چمن سے باہر
منیرؔ شکوہ آبادی
الجھا ہے مگر زلف میں تقریر کا لچھا
سلجھی ہوئی ہم نے نہ سنی بات تمہاری
منیرؔ شکوہ آبادی
اس بت کے نہانے سے ہوا صاف یہ پانی
موتی بھی صدف میں تہہ دریا نظر آیا
منیرؔ شکوہ آبادی