کفر و اسلام نے مقصد کو پہنچنے نہ دیا
کعبہ و دیر کو سنگ رہ منزل سمجھا
منیرؔ شکوہ آبادی
کیا مزہ پردۂ وحدت میں ہے کھلتا نہیں حال
آپ خلوت میں یہ فرمائیے کیا کرتے ہیں
منیرؔ شکوہ آبادی
لگ گئی آگ آتش رخ سے نقاب یار میں
دیکھ لو جلتا ہے کونا چادر مہتاب کا
منیرؔ شکوہ آبادی
لگائیں تاک کے اس مست نے جو تلواریں
دہان زخم بدن سے بھی آئے بوئے شراب
منیرؔ شکوہ آبادی
لیٹے جو ساتھ ہاتھ لگا بوسۂ دہن
آیا عمل میں علم نہانی پلنگ پر
منیرؔ شکوہ آبادی
میں جستجو سے کفر میں پہنچا خدا کے پاس
کعبہ تک ان بتوں کا مجھے نام لے گیا
منیرؔ شکوہ آبادی
میں کیا دکھائی دیتی نہیں بلبلوں کو بھی
پہنے تو ایسے مل گئے تیرے بدن میں پھول
منیرؔ شکوہ آبادی
ملتے ہیں خوبرو ترے خیمہ سے چھاتیاں
انگیا کی ڈوریاں ہیں مقرر قنات میں
منیرؔ شکوہ آبادی
مستوں میں پھوٹ پڑ گئی آتے ہی یار کے
لڑتا ہے آج شیشہ سے شیشہ شراب کا
منیرؔ شکوہ آبادی