برہمن کعبہ میں آیا شیخ پہونچا دیر میں
لوگ بے وحدت ہوئے ہیں تیری کثرت دیکھ کر
منیرؔ شکوہ آبادی
آنکھیں خدا نے بخشی ہیں رونے کے واسطے
دو کشتیاں ملی ہیں ڈبونے کے واسطے
منیرؔ شکوہ آبادی
اے رشک ماہ رات کو مٹھی نہ کھولنا
مہدی کا چور ہاتھ سے جائے نہ چھوٹ کے
منیرؔ شکوہ آبادی
اے بت یہ ہے نماز کہ ہے گھات قتل کی
نیت ادا کی ہے کہ اشارے قضا کے ہیں
منیرؔ شکوہ آبادی
اب کے بہار حسن بتاں ہے کمال پر
ناقوس ہو نہ جائے کف برہمن میں پھول
منیرؔ شکوہ آبادی
آتے نہیں ہیں دیدہ گریاں کے سامنے
بادل بھی کرتے ہیں مری برسات کا لحاظ
منیرؔ شکوہ آبادی
آستین صبر سے باہر نہ نکلے گا اگر
ہوگی دست غیب کی صورت ہمارے ہاتھ میں
منیرؔ شکوہ آبادی
عاشق بنا کے ہم کو جلاتے ہیں شمع رو
پروانہ چاہئے انہیں پروانہ چاہئے
منیرؔ شکوہ آبادی
آنکھوں میں نہیں سلسلۂ اشک شب و روز
تسبیح پڑھا کرتے ہیں دن رات تمہاری
منیرؔ شکوہ آبادی