جھوٹی باتوں کی تجلی نظر آئے ایسے
صبح کاذب کی سفیدی پھرے دالانوں میں
منیرؔ شکوہ آبادی
جس روز میں گنتا ہوں ترے آنے کی گھڑیاں
سورج کو بنا دیتی ہے سونے کی گھڑی بات
منیرؔ شکوہ آبادی
کعبے سے مجھ کو لائی سواد کنشت میں
اصلاح دی بتوں نے خط سر نوشت میں
منیرؔ شکوہ آبادی
کب پان رقیبوں کو عنایت نہیں ہوتے
کس روز مرے قتل کا بیڑا نہیں اٹھتا
منیرؔ شکوہ آبادی
کبھی پیام نہ بھیجا بتوں نے میرے پاس
خدا ہیں کیسے کہ پیغامبر نہیں رکھتے
منیرؔ شکوہ آبادی
کہتے ہیں سب دیکھ کر بیتاب میرا عضو عضو
آدمی اب تک نہیں دیکھا کہیں سیماب کا
منیرؔ شکوہ آبادی
کرتا رہا لغات کی تحقیق عمر بھر
اعمال نامہ نسخۂ فرہنگ ہو گیا
منیرؔ شکوہ آبادی
کرتے ہیں مسجدوں میں شکوۂ مستاں زاہد
یعنی آنکھوں کا بھوؤں سے یہ گلا کرتے ہیں
منیرؔ شکوہ آبادی
خاکساروں میں نہیں ایسی کسی کی توقیر
قد آدم مری تعظیم کو سایا اٹھا
منیرؔ شکوہ آبادی