خال و خط سے عیب اس کے روئے اقدس کو نہیں
حسن ہے مصحف میں ہونا نقطۂ اعراب کا
منیرؔ شکوہ آبادی
کھاتے ہیں انگور پیتے ہیں شراب
بس یہی مستوں کا آب و دانہ ہے
منیرؔ شکوہ آبادی
خوب تعزیر گناہ عشق ہے
نقد جاں لینا یہاں جرمانہ ہے
منیرؔ شکوہ آبادی
کبر بھی ہے شرک اے زاہد موحد کے حضور
لے کے تیشہ خاکساری کا بت پندار توڑ
منیرؔ شکوہ آبادی
کی ترک میں نے شیخ و برہمن کی پیروی
دیر و حرم میں مجھ کو ترا نام لے گیا
منیرؔ شکوہ آبادی
کس طرح خوش ہوں شام کو وہ چاند دیکھ کر
آتا نہیں ہے مشعل مہ کا دھواں پسند
منیرؔ شکوہ آبادی
کسی سے اٹھ نہیں سکنے کا بوجھ مستوں کا
زمین شق ہو اگر شیشۂ شراب گرے
منیرؔ شکوہ آبادی
کوٹھے پہ چہرۂ پر نور دکھایا سر شام
یار سے رجعت خورشید کا اعجاز ہوا
منیرؔ شکوہ آبادی
کفر و اسلام میں تولیں جو حقیقت تیری
بت کدہ کیا کہ حرم سنگ ترازو ہو جائے
منیرؔ شکوہ آبادی