استاد کے احسان کا کر شکر منیرؔ آج
کی اہل سخن نے تری تعریف بڑی بات
منیرؔ شکوہ آبادی
تیغ ابرو کے مجھے زخم کہن یاد آئے
ماہ نو کو بھی میں تلوار پرانی سمجھا
منیرؔ شکوہ آبادی
تیری فرقت میں شراب عیش کا توڑا ہوا
جام مے دست سبو کے واسطے پھوڑا ہوا
منیرؔ شکوہ آبادی
ترے کوچے سے جدا روتے ہیں شب کو عاشق
آج کل بارش شبنم ہے چمن سے باہر
منیرؔ شکوہ آبادی
الجھا ہے مگر زلف میں تقریر کا لچھا
سلجھی ہوئی ہم نے نہ سنی بات تمہاری
منیرؔ شکوہ آبادی
اس بت کے نہانے سے ہوا صاف یہ پانی
موتی بھی صدف میں تہہ دریا نظر آیا
منیرؔ شکوہ آبادی
اسی حور کی رنگت اڑی رونے سے ہمارے
رنگ گل فردوس بھی کچا نظر آیا
منیرؔ شکوہ آبادی
زاہدو پوجا تمہاری خوب ہوگی حشر میں
بت بنا دے گی تمہیں یہ حق پرستی ایک دن
منیرؔ شکوہ آبادی
یاد اس بت کی نمازوں میں جو آئی مجھ کو
تپش شوق سے ہر بار میں بیٹھا اٹھا
منیرؔ شکوہ آبادی