روز دل ہائے مے کشاں ٹوٹے
اے خدا جام آسماں ٹوٹے
منیرؔ شکوہ آبادی
سب نے لوٹے ان کے جلوہ کے مزے
شربت دیدار جوٹھا ہو گیا
منیرؔ شکوہ آبادی
صبر کب تک راہ پیدا ہو کہ اے دل جان جائے
ایک ٹکر مار کر سر پھوڑ یا دیوار توڑ
منیرؔ شکوہ آبادی
صدمہ سے بال شیشۂ گردوں میں پڑ گیا
تم نے دکھائی کوٹھے پر اپنی کمر کسے
منیرؔ شکوہ آبادی
سختیٔ دہر ہوئے بحر سخن میں آساں
قافیے آئے جو پتھر کے میں پانی سمجھا
منیرؔ شکوہ آبادی
سرسوں جو پھولی دیدۂ جام شراب میں
بنت العنب سے کرنے لگا شوخیاں بسنت
منیرؔ شکوہ آبادی
شبنم کی ہے انگیا تلے انگیا کی پسینہ
کیا لطف ہے شبنم تہ شبنم نظر آئی
منیرؔ شکوہ آبادی
شرم کب تک اے پری لا ہاتھ کر اقرار وصل
اپنے دل کو سخت کر کے رشتۂ انکار توڑ
منیرؔ شکوہ آبادی
شکر ہے جامہ سے باہر وہ ہوا غصہ میں
جو کہ پردے میں بھی عریاں نہ ہوا تھا سو ہوا
منیرؔ شکوہ آبادی