کبر بھی ہے شرک اے زاہد موحد کے حضور
لے کے تیشہ خاکساری کا بت پندار توڑ
منیرؔ شکوہ آبادی
کی ترک میں نے شیخ و برہمن کی پیروی
دیر و حرم میں مجھ کو ترا نام لے گیا
منیرؔ شکوہ آبادی
کس طرح خوش ہوں شام کو وہ چاند دیکھ کر
آتا نہیں ہے مشعل مہ کا دھواں پسند
منیرؔ شکوہ آبادی
کفر و اسلام نے مقصد کو پہنچنے نہ دیا
کعبہ و دیر کو سنگ رہ منزل سمجھا
منیرؔ شکوہ آبادی
لگ گئی آگ آتش رخ سے نقاب یار میں
دیکھ لو جلتا ہے کونا چادر مہتاب کا
منیرؔ شکوہ آبادی
کیا مزہ پردۂ وحدت میں ہے کھلتا نہیں حال
آپ خلوت میں یہ فرمائیے کیا کرتے ہیں
منیرؔ شکوہ آبادی
رندوں کو پابندیٔ دنیا کہاں
کشتیٔ مے کو نہیں لنگر کی چاہ
منیرؔ شکوہ آبادی
کفر و اسلام میں تولیں جو حقیقت تیری
بت کدہ کیا کہ حرم سنگ ترازو ہو جائے
منیرؔ شکوہ آبادی
کوٹھے پہ چہرۂ پر نور دکھایا سر شام
یار سے رجعت خورشید کا اعجاز ہوا
منیرؔ شکوہ آبادی