EN हिंदी
منیرؔ  شکوہ آبادی شیاری | شیح شیری

منیرؔ  شکوہ آبادی شیر

107 شیر

مل مل گئے ہیں خاک میں لاکھوں دل روشن
ہر ذرہ مجھے عرش کا تارا نظر آیا

منیرؔ  شکوہ آبادی




منڈیروں پر چھڑک دے اپنے کشتوں کا لہو اے گل
اگے گا سبزۂ شمسیر دیوار گلستاں پر

منیرؔ  شکوہ آبادی




منہ تک بھی ضعف سے نہیں آ سکتی دل کی بات
دروازہ گھر سے سیکڑوں فرسنگ ہو گیا

منیرؔ  شکوہ آبادی




مجھ کو اپنے ساتھ ہی تیرے سلانے کی ہوس
اس طرح ہے بخت خفتہ کے جگانے کی ہوس

منیرؔ  شکوہ آبادی




نماز شکر کی پڑھتا ہے جام توڑ کے شیخ
وضو کے واسطے لیتا ہے آبروئے شراب

منیرؔ  شکوہ آبادی




پڑ گئی جان جو اس طفل نے پتھر مارے
آج جگنو کی طرح ہر شرر سنگ اڑا

منیرؔ  شکوہ آبادی




پایا طبیب نے جو تری زلف کا مریض
شامل دوا میں مشک شب تار کر دیا

منیرؔ  شکوہ آبادی




پہنچا ہے اس کے پاس یہ آئینہ ٹوٹ کے
کس سے ملا ہے شیشۂ دل ہم سے پھوٹ کے

منیرؔ  شکوہ آبادی




رندوں کو پابندیٔ دنیا کہاں
کشتیٔ مے کو نہیں لنگر کی چاہ

منیرؔ  شکوہ آبادی