ہماری روح جو تیری گلی میں آئی ہے
اجل کے صدقے میں یہ راہ دیکھ پائی ہے
وہاں پہنچ نہیں سکتیں تمہاری زلفیں بھی
ہمارے دست طلب کی جہاں رسائی ہے
لہو مرا تری تلوار سے ملا ایسا
کہ ناگوار پس ذبح بھی جدائی ہے
نہ پوچھئے کہ تو جلتا ہے کیوں رقیبوں سے
وہی یہ آگ ہے جو آپ نے لگائی ہے
نثار حضرت آغا علی حسنؔ خاں ہوں
زیادہ حد سے مری آبرو بڑھائی ہے
غزل
ہماری روح جو تیری گلی میں آئی ہے
منیرؔ شکوہ آبادی