EN हिंदी
ہماری روح جو تیری گلی میں آئی ہے | شیح شیری
hamari ruh jo teri gali mein aai hai

غزل

ہماری روح جو تیری گلی میں آئی ہے

منیرؔ  شکوہ آبادی

;

ہماری روح جو تیری گلی میں آئی ہے
اجل کے صدقے میں یہ راہ دیکھ پائی ہے

وہاں پہنچ نہیں سکتیں تمہاری زلفیں بھی
ہمارے دست طلب کی جہاں رسائی ہے

لہو مرا تری تلوار سے ملا ایسا
کہ ناگوار پس ذبح بھی جدائی ہے

نہ پوچھئے کہ تو جلتا ہے کیوں رقیبوں سے
وہی یہ آگ ہے جو آپ نے لگائی ہے

نثار حضرت آغا علی حسنؔ خاں ہوں
زیادہ حد سے مری آبرو بڑھائی ہے