جب تلک زر ہے تو سب کوئی ہے پھر کوئی نہیں
سچ ہے مکھی بھی رہے ہے شکر و شیر تلک
میر حسن
جیسے کہ آج وصل ہوا کیا نہ چاہیئے
اک دن بھی آوے ایسا اگر سو برس کے بیچ
میر حسن
جھوٹ موٹ ان سے میں کچھ مصلحتاً بولوں گا
سچ ہے تو بول نہ اٹھیو دل آگاہ کہ جھوٹ
میر حسن
جس طرح چاہا لکھیں دل نے کہا یوں مت لکھ
سیکڑوں بار دھرا اور اٹھایا کاغذ
میر حسن
جو کوئی آوے ہے نزدیک ہی بیٹھے ہے ترے
ہم کہاں تک ترے پہلو سے سرکتے جاویں
whoever comes takes his place here right by your side
how long with this displacement from you shall I abide
میر حسن
کعبے کو گیا چھوڑ کے کیوں دل کو تو اے شیخ
ٹک جی میں سمجھتا تو سہی یاں بھی تو رب تھا
میر حسن
کہتا ہے تو کہ تجھ کو پاتا نہیں کبھی گھر
یہ جھوٹ سچ ہے دیکھوں آج اپنے گھر رہوں گا
میر حسن
کر کے بسمل نہ تو نے پھر دیکھا
بس اسی غم میں جان دی ہم نے
میر حسن
کھا کے غم خوان عشق کے مہمان
ہاتھ خون جگر سے دھوتے ہیں
میر حسن