EN हिंदी
میر حسن شیاری | شیح شیری

میر حسن شیر

107 شیر

جب تلک زر ہے تو سب کوئی ہے پھر کوئی نہیں
سچ ہے مکھی بھی رہے ہے شکر و شیر تلک

میر حسن




جیسے کہ آج وصل ہوا کیا نہ چاہیئے
اک دن بھی آوے ایسا اگر سو برس کے بیچ

میر حسن




جھوٹ موٹ ان سے میں کچھ مصلحتاً بولوں گا
سچ ہے تو بول نہ اٹھیو دل آگاہ کہ جھوٹ

میر حسن




جس طرح چاہا لکھیں دل نے کہا یوں مت لکھ
سیکڑوں بار دھرا اور اٹھایا کاغذ

میر حسن




جو کوئی آوے ہے نزدیک ہی بیٹھے ہے ترے
ہم کہاں تک ترے پہلو سے سرکتے جاویں

whoever comes takes his place here right by your side
how long with this displacement from you shall I abide

میر حسن




کعبے کو گیا چھوڑ کے کیوں دل کو تو اے شیخ
ٹک جی میں سمجھتا تو سہی یاں بھی تو رب تھا

میر حسن




کہتا ہے تو کہ تجھ کو پاتا نہیں کبھی گھر
یہ جھوٹ سچ ہے دیکھوں آج اپنے گھر رہوں گا

میر حسن




کر کے بسمل نہ تو نے پھر دیکھا
بس اسی غم میں جان دی ہم نے

میر حسن




کھا کے غم خوان عشق کے مہمان
ہاتھ خون جگر سے دھوتے ہیں

میر حسن