آئینہ ہی کو کب تئیں دکھلاؤ گے جمال
باہر کھڑے ہیں کتنے اور امیدوار بھی
میر حسن
آباد گر وہ چاہے دل کو تو کر سکے ہے
منظور ہے پر اس کو میرا خراب رکھنا
میر حسن
آہ کیا شکوہ کروں میں ہاتھ سے اس کے حنا
جب ہوئی میرے لہو کی رنگ تب دھونے لگا
میر حسن
آہ تعظیم کو اٹھتی ہے مرے سینہ سے
دل پہ جب اس کی نگاہوں کے خدنگ آتے ہیں
میر حسن
آساں نہ سمجھیو تم نخوت سے پاک ہونا
اک عمر کھو کے ہم نے سیکھا ہے خاک ہونا
میر حسن
آشنا بے وفا نہیں ہوتا
بے وفا آشنا نہیں ہوتا
میر حسن
اب جو چھوٹے بھی ہم قفس سے تو کیا
ہو چکی واں بہار ہی آخر
میر حسن
اپنے کہنے میں تو دل مطلق نہیں کس سے کہیں
کیا کریں اے ناصحو کچھ تو کرو ارشاد تم
میر حسن
اثر ہووے نہ ہووے پر بلا سے جی تو بہلے گا
نکالا شغل تنہائی میں میں ناچار رونے کا
میر حسن