EN हिंदी
میر حسن شیاری | شیح شیری

میر حسن شیر

107 شیر

آئینہ ہی کو کب تئیں دکھلاؤ گے جمال
باہر کھڑے ہیں کتنے اور امیدوار بھی

میر حسن




آباد گر وہ چاہے دل کو تو کر سکے ہے
منظور ہے پر اس کو میرا خراب رکھنا

میر حسن




آہ کیا شکوہ کروں میں ہاتھ سے اس کے حنا
جب ہوئی میرے لہو کی رنگ تب دھونے لگا

میر حسن




آہ تعظیم کو اٹھتی ہے مرے سینہ سے
دل پہ جب اس کی نگاہوں کے خدنگ آتے ہیں

میر حسن




آساں نہ سمجھیو تم نخوت سے پاک ہونا
اک عمر کھو کے ہم نے سیکھا ہے خاک ہونا

میر حسن




آشنا بے وفا نہیں ہوتا
بے وفا آشنا نہیں ہوتا

میر حسن




اب جو چھوٹے بھی ہم قفس سے تو کیا
ہو چکی واں بہار ہی آخر

میر حسن




اپنے کہنے میں تو دل مطلق نہیں کس سے کہیں
کیا کریں اے ناصحو کچھ تو کرو ارشاد تم

میر حسن




اثر ہووے نہ ہووے پر بلا سے جی تو بہلے گا
نکالا شغل تنہائی میں میں ناچار رونے کا

میر حسن