EN हिंदी
میر حسن شیاری | شیح شیری

میر حسن شیر

107 شیر

مت پونچھ ابروئے عرق آلود ہاتھ سے
لازم ہے احتیاط کہ ہے آب دار تیغ

میر حسن




میں حشر کو کیا روؤں کہ اٹھ جانے سے تیرے
برپا ہوئی اک مجھ پہ قیامت تو یہیں اور

میر حسن




مرے آئینۂ دل کا اسے منظور تھا لینا
جو غیروں میں کہا بھونڈا برا بد رنگ ناکارہ

میر حسن




مژگاں سے اس کے کیوں کر دل چھٹ سکے ہمارا
گھیرے ہوے ہیں اس کو وے خار سب طرف سے

میر حسن




محبت کا رستہ عجب گرم تھا
قدم جب دھرا خاک پر جل گیا

میر حسن




مو سے سپید نے نمک اس میں ملا دیا
کیفیت اب رہی نہیں جام شراب میں

میر حسن




نہ غرض مجھ کو ہے کافر سے نہ دیں دار سے کام
روز و شب ہے مجھے اس کاکل خم دار سے کام

میر حسن




نہ لیٹ اس طرح منہ پر زلف کو بکھرا کے اے ظالم
ذرا اٹھ بیٹھ تو اس دم کہ دونوں وقت ملتے ہیں

میر حسن




ناخن نہ پہنچا آبلۂ دل تلک حسنؔ
ہم مر گئے یہ ہم سے نہ آخر گرہ گئی

میر حسن