مت پونچھ ابروئے عرق آلود ہاتھ سے
لازم ہے احتیاط کہ ہے آب دار تیغ
میر حسن
میں حشر کو کیا روؤں کہ اٹھ جانے سے تیرے
برپا ہوئی اک مجھ پہ قیامت تو یہیں اور
میر حسن
مرے آئینۂ دل کا اسے منظور تھا لینا
جو غیروں میں کہا بھونڈا برا بد رنگ ناکارہ
میر حسن
مژگاں سے اس کے کیوں کر دل چھٹ سکے ہمارا
گھیرے ہوے ہیں اس کو وے خار سب طرف سے
میر حسن
محبت کا رستہ عجب گرم تھا
قدم جب دھرا خاک پر جل گیا
میر حسن
مو سے سپید نے نمک اس میں ملا دیا
کیفیت اب رہی نہیں جام شراب میں
میر حسن
نہ غرض مجھ کو ہے کافر سے نہ دیں دار سے کام
روز و شب ہے مجھے اس کاکل خم دار سے کام
میر حسن
نہ لیٹ اس طرح منہ پر زلف کو بکھرا کے اے ظالم
ذرا اٹھ بیٹھ تو اس دم کہ دونوں وقت ملتے ہیں
میر حسن
ناخن نہ پہنچا آبلۂ دل تلک حسنؔ
ہم مر گئے یہ ہم سے نہ آخر گرہ گئی
میر حسن