لگایا محبت کا جب یاں شجر
شجر لگ گیا اور ثمر جل گیا
میر حسن
مانند عکس دیکھا اسے اور نہ مل سکے
کس رو سے پھر کہیں گے کہ روز وصال تھا
میر حسن
میں بھی اک معنیٔ پیچیدہ عجب تھا کہ حسنؔ
گفتگو میری نہ پہنچی کبھی تقریر تلک
میر حسن
میں حشر کو کیا روؤں کہ اٹھ جاتے ہی تیرے
برپا ہوئی اک مجھ پہ قیامت تو یہیں اور
میر حسن
میں نے جو کہا مجھ پہ کیا کیا نہ ستم گزرا
بولا کہ ابے تیرا روتے ہی جنم گزرا
میر حسن
میں نے پایا نہ اسے شہر میں نہ صحرا میں
تو نے لے جا کے مرے دل کو کہاں چھوڑ دیا
میر حسن
میں تو اس ڈر سے کچھ نہیں کہتا
تو مبادا اداس ہو جاوے
میر حسن
مر گیا ہوتا نہ ہوتی قہر میں شامل جو مہر
صحت دل اس دوائے معتدل نے کی غرض
میر حسن
مت بخت خفتہ پر مرے ہنس اے رقیب تو
ہوگا ترے نصیب بھی یہ خواب دیکھنا
میر حسن