جب تلک تیر ترا آوے ہے نخچیر تلک
لے یہ نخچیر ہی آ پہنچا ترے تیر تلک
دست و پا مارے بہت چاہ زنخ میں دل نے
ہاتھ لیکن نہ گیا زلف کی زنجیر تلک
شکر صد شکر کہ عقدے یوں ہی حل ہوتے گئے
کام پہنچا نہ ہمارا کبھی تدبیر تلک
اس کی صورت کا دوانا ہوں کہ جس کا خط و خال
نہ گیا مانی و بہزاد کی تحریر تلک
ہے یہی شوق شہادت کا اگر دل میں تو عشق
لے ہی پہنچے گا ہمیں بھی تری شمشیر تلک
اک مسلمان کا جی جاتا ہے الفت میں تری
جا کہے کوئی یہ اس کافر بے پیر تلک
جب تلک زر ہے تو سب کوئی ہے پھر کوئی نہیں
سچ ہے مکھی بھی رہے ہے شکر و شیر تلک
اس طرح بیٹھ گیا خانۂ دل میرا کہ بس
کام پھر اس کا نہ پہنچا کبھی تعمیر تلک
خون ہو ہو کے ٹپکتا ہے یہ سو رنگ سے دل
تا کسی رنگ میں پہنچے تری تصویر تلک
میں بھی اک معنیٔ پیچیدہ عجب تھا کہ حسنؔ
گفتگو میری نہ پہنچی کبھی تقریر تلک
غزل
جب تلک تیر ترا آوے ہے نخچیر تلک
میر حسن