خدا جانے پلک سے کیونکہ لگتی ہے پلک ہمدم
کبھی آنکھوں سے ہم نے تو نہ دیکھا اپنے سونے کو
میر حسن
خواہ کعبہ ہو کہ بت خانہ غرض ہم سے سن
جس طرف دل کی طبیعت ہو ادھر کو چلیے
میر حسن
کس وقت میں بسا تھا الٰہی یہ ملک دل
صدمے ہی پڑتے رہتے ہیں نت اس دیار پر
میر حسن
کوچۂ یار ہے اور دیر ہے اور کعبہ ہے
دیکھیے عشق ہمیں آہ کدھر لاوے گا
میر حسن
کیا جانئے کہ باہم کیوں ہم میں اور اس میں
موقوف ہو گیا ہے اب وہ تپاک ہونا
میر حسن
کیا شکوہ کریں کنج قفس کا دل مضطر
ہم نے تو چمن میں بھی ٹک آرام نہ پایا
میر حسن
کیا تھا کہ آج ناقہ بے ساربان پایا
مجنوں کے ہاتھ ہم نے اس کی مہار دیکھی
میر حسن
کیوں گرفتاری کے باعث مضطرب صیاد ہوں
لگتے لگتے جی قفس میں بھی مرا لگ جائے گا
میر حسن
کیوں ان دنوں حسنؔ تو اتنا جھٹک گیا ہے
ظالم کہیں ترا دل کیا پھر اٹک گیا ہے
میر حسن