EN हिंदी
میر حسن شیاری | شیح شیری

میر حسن شیر

107 شیر

ناقہ سے دور رہ گیا آخر نہ قیس تو
کہتے نہ تھے کہ پاؤں سے مت کھینچ خار کو

میر حسن




ناصحوں کے ہاتھ سے چھوڑیں گے رہنا شہر کا
دیکھتے ہیں اور دن دو چار اب بنتی نہیں

میر حسن




نو گرفتاری کے باعث مضطرب صیاد ہوں
لگتے لگتے جی قفس میں بھی مرا لگ جائے گا

میر حسن




نوجوانی کی دید کر لیجے
اپنے موسم کی عید کر لیجے

میر حسن




نظر آنے سے رہ گیا از بس
چھا گیا انتظار آنکھوں میں

میر حسن




قسمت نے دور ایسا ہی پھینکا ہمیں کہ ہم
پھر جیتے جی پہنچ نہ سکے اپنے یار تک

میر حسن




رکھوں کہاں میں اپنے پری زاد کو حسنؔ
شیشہ جو ایک دل کا مرے ہے سو چور ہے

میر حسن




سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں

میر حسن




سر کو نہ پھینک اپنے فلک پر غرور سے
تو خاک سے بنا ہے ترا گھر زمین ہے

میر حسن