ناقہ سے دور رہ گیا آخر نہ قیس تو
کہتے نہ تھے کہ پاؤں سے مت کھینچ خار کو
میر حسن
ناصحوں کے ہاتھ سے چھوڑیں گے رہنا شہر کا
دیکھتے ہیں اور دن دو چار اب بنتی نہیں
میر حسن
نو گرفتاری کے باعث مضطرب صیاد ہوں
لگتے لگتے جی قفس میں بھی مرا لگ جائے گا
میر حسن
نوجوانی کی دید کر لیجے
اپنے موسم کی عید کر لیجے
میر حسن
نظر آنے سے رہ گیا از بس
چھا گیا انتظار آنکھوں میں
میر حسن
قسمت نے دور ایسا ہی پھینکا ہمیں کہ ہم
پھر جیتے جی پہنچ نہ سکے اپنے یار تک
میر حسن
رکھوں کہاں میں اپنے پری زاد کو حسنؔ
شیشہ جو ایک دل کا مرے ہے سو چور ہے
میر حسن
سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
میر حسن
سر کو نہ پھینک اپنے فلک پر غرور سے
تو خاک سے بنا ہے ترا گھر زمین ہے
میر حسن