اس شوخ کے جانے سے عجب حال ہے میرا
جیسے کوئی بھولے ہوئے پھرتا ہے کچھ اپنا
میر حسن
تو رہا دل میں دل رہا تجھ میں
تس پہ تیرا ملاپ ہو نہ سکا
میر حسن
تو خفا مجھ سے ہو تو ہو لیکن
میں تو تجھ سے خفا نہیں ہوتا
میر حسن
ٹک دیکھ لیں چمن کو چلو لالہ زار تک
کیا جانے پھر جئیں نہ جئیں ہم بہار تک
میر حسن
تھا روئے زمیں تنگ زبس ہم نے نکالی
رہنے کے لیے شعر کے عالم میں زمیں اور
میر حسن
نظر آنے سے رہ گیا از بس
چھا گیا انتظار آنکھوں میں
میر حسن
نوجوانی کی دید کر لیجے
اپنے موسم کی عید کر لیجے
میر حسن
نو گرفتاری کے باعث مضطرب صیاد ہوں
لگتے لگتے جی قفس میں بھی مرا لگ جائے گا
میر حسن
قسمت نے دور ایسا ہی پھینکا ہمیں کہ ہم
پھر جیتے جی پہنچ نہ سکے اپنے یار تک
میر حسن