EN हिंदी
ہم نہ ہنستے ہیں اور نہ روتے ہیں | شیح شیری
hum na hanste hain aur na rote hain

غزل

ہم نہ ہنستے ہیں اور نہ روتے ہیں

میر حسن

;

ہم نہ ہنستے ہیں اور نہ روتے ہیں
عمر حیرت میں اپنی کھوتے ہیں

کھا کے غم خوان عشق کے مہمان
ہاتھ خون جگر سے دھوتے ہیں

وصل ہوتا ہے جن کو دنیا میں
یا رب ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں

کوس رحلت ہے جنبش ہر دم
آہ تس پر بھی یار سوتے ہیں

دل لگا اس سے مردم دیدہ
ساتھ اپنے ہمیں ڈبوتے ہیں

آہ و نالہ سے وہ خفا ہے عبث
کانٹے ہم اپنے حق میں بوتے ہیں

یاد آتی ہیں اس کی جب باتیں
دل حسنؔ دونوں مل کے روتے ہیں