وصل کی شب کا مزہ ہوتا ہے اول جیسے
ویسے ہی ہوتا ہے احوال بتر آخر شب
میر حسن
تھا روئے زمیں تنگ زبس ہم نے نکالی
رہنے کے لیے شعر کے عالم میں زمیں اور
میر حسن
ٹک دیکھ لیں چمن کو چلو لالہ زار تک
کیا جانے پھر جئیں نہ جئیں ہم بہار تک
میر حسن
تو خفا مجھ سے ہو تو ہو لیکن
میں تو تجھ سے خفا نہیں ہوتا
میر حسن
تو رہا دل میں دل رہا تجھ میں
تس پہ تیرا ملاپ ہو نہ سکا
میر حسن
اس شوخ کے جانے سے عجب حال ہے میرا
جیسے کوئی بھولے ہوئے پھرتا ہے کچھ اپنا
میر حسن
وصل ہوتا ہے جن کو دنیا میں
یا رب ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں
میر حسن
ذات گر پوچھیے آدم کی تو ہے ایک وہی
لاکھ یوں کہنے کو ٹھہرائیے ذاتیں دل میں
میر حسن
یہ دل کچھ آپھی ہو جاتا ہے بند اور آپھی کھلتا ہے
نہ میں قید اس کو کرتا ہوں نہ میں آزاد کرتا ہوں
میر حسن