EN हिंदी
میر حسن شیاری | شیح شیری

میر حسن شیر

107 شیر

کوچۂ یار ہے اور دیر ہے اور کعبہ ہے
دیکھیے عشق ہمیں آہ کدھر لاوے گا

میر حسن




کیا جانئے کہ باہم کیوں ہم میں اور اس میں
موقوف ہو گیا ہے اب وہ تپاک ہونا

میر حسن




کیا شکوہ کریں کنج قفس کا دل مضطر
ہم نے تو چمن میں بھی ٹک آرام نہ پایا

میر حسن




لگایا محبت کا جب یاں شجر
شجر لگ گیا اور ثمر جل گیا

میر حسن




میں بھی اک معنیٔ پیچیدہ عجب تھا کہ حسنؔ
گفتگو میری نہ پہنچی کبھی تقریر تلک

میر حسن




مانند عکس دیکھا اسے اور نہ مل سکے
کس رو سے پھر کہیں گے کہ روز وصال تھا

میر حسن




ناخن نہ پہنچا آبلۂ دل تلک حسنؔ
ہم مر گئے یہ ہم سے نہ آخر گرہ گئی

میر حسن




کیوں ان دنوں حسنؔ تو اتنا جھٹک گیا ہے
ظالم کہیں ترا دل کیا پھر اٹک گیا ہے

میر حسن




کیوں گرفتاری کے باعث مضطرب صیاد ہوں
لگتے لگتے جی قفس میں بھی مرا لگ جائے گا

میر حسن