EN हिंदी
خواہ سچ جان مری بات کو تو خواہ کہ جھوٹ | شیح شیری
KHwah sach jaan meri baat ko tu KHwah ki jhuT

غزل

خواہ سچ جان مری بات کو تو خواہ کہ جھوٹ

میر حسن

;

خواہ سچ جان مری بات کو تو خواہ کہ جھوٹ
سچ کہوں سچ کو اگر تیرے تو واللہ کہ جھوٹ

سچ اگر بولے تو ہم سے تو بھلا کیا ہو خوشی
جی میں جی آتا ہے سن کر ترا ہر گاہ کہ جھوٹ

راست گر پوچھے تو ہے راست کہ تجھ میں نہیں مہر
اپنی ہٹ دھرمی سے کہتا ہے تو اے ماہ کہ جھوٹ

جھوٹ موٹ ان سے میں کچھ مصلحتاً بولوں گا
سچ ہے تو بول نہ اٹھیو دل آگاہ کہ جھوٹ

میں جو پوچھا کہ تجھے غیروں سے ہے راہ تو وہ
پھیر کر منہ کو لگا کہنے باکراہ کہ جھوٹ

کوئی اتنا بھی برا کرتا ہے میری ہی طرح
کیوں بھلا سچ ہے نہ یہ اے بت دل خواہ کہ جھوٹ

دل تو واقف ہے بہت واں سے ٹک اک سچ کہنا
لاوبالی ہے مرے یار کی درگاہ کہ جھوٹ

مجھ سے جب ملتا ہے تب چھیڑ کے پوچھے ہے یہی
یہ حسنؔ سچ ہی تو رکھتا ہے مری چاہ کہ جھوٹ

کیا جواب اس کا مرے پاس بجز خاموشی
یا مگر یہ کہ یہی ہر گہ کہوں آہ کہ جھوٹ