وصل ہوتا ہے جن کو دنیا میں
یا رب ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں
میر حسن
وصل کی شب کا مزہ ہوتا ہے اول جیسے
ویسے ہی ہوتا ہے احوال بتر آخر شب
میر حسن
وصل میں بھی نہ گئی چھیڑ یہی کہتا رہ
کہ تجھے ایسا بھلا دوں کہ بہت یاد کرے
میر حسن
وہ تاب و تواں کہاں ہے یا رب
جو اس دل ناتواں میں تب تھا
میر حسن
وہ تیرہ بخت ہوں کہ حسنؔ میری بزم میں
داغ سیہ چراغ ہے اور دود آہ شمع
میر حسن
یہ دل کچھ آپھی ہو جاتا ہے بند اور آپھی کھلتا ہے
نہ میں قید اس کو کرتا ہوں نہ میں آزاد کرتا ہوں
میر حسن
ذات گر پوچھیے آدم کی تو ہے ایک وہی
لاکھ یوں کہنے کو ٹھہرائیے ذاتیں دل میں
میر حسن
ظلم کب تک کیجئے گا اس دل ناشاد پر
اب تو اس بندہ پہ ٹک کیجے کرم بندہ نواز
میر حسن