EN हिंदी
میر حسن شیاری | شیح شیری

میر حسن شیر

107 شیر

وصل ہوتا ہے جن کو دنیا میں
یا رب ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں

میر حسن




وصل کی شب کا مزہ ہوتا ہے اول جیسے
ویسے ہی ہوتا ہے احوال بتر آخر شب

میر حسن




وصل میں بھی نہ گئی چھیڑ یہی کہتا رہ
کہ تجھے ایسا بھلا دوں کہ بہت یاد کرے

میر حسن




وہ تاب و تواں کہاں ہے یا رب
جو اس دل ناتواں میں تب تھا

میر حسن




وہ تیرہ بخت ہوں کہ حسنؔ میری بزم میں
داغ سیہ چراغ ہے اور دود آہ شمع

میر حسن




یہ دل کچھ آپھی ہو جاتا ہے بند اور آپھی کھلتا ہے
نہ میں قید اس کو کرتا ہوں نہ میں آزاد کرتا ہوں

میر حسن




ذات گر پوچھیے آدم کی تو ہے ایک وہی
لاکھ یوں کہنے کو ٹھہرائیے ذاتیں دل میں

میر حسن




ظلم کب تک کیجئے گا اس دل ناشاد پر
اب تو اس بندہ پہ ٹک کیجے کرم بندہ نواز

میر حسن