EN हिंदी
کبھی شاخ و سبزہ و برگ پر کبھی غنچہ و گل و خار پر | شیح شیری
kabhi shaKH o sabza o barg par kabhi ghuncha o gul o Khaar par

غزل

کبھی شاخ و سبزہ و برگ پر کبھی غنچہ و گل و خار پر

جگر مراد آبادی

;

کبھی شاخ و سبزہ و برگ پر کبھی غنچہ و گل و خار پر
میں چمن میں چاہے جہاں رہوں مرا حق ہے فصل بہار پر

مجھے دیں نہ غیظ میں دھمکیاں گریں لاکھ بار یہ بجلیاں
مری سلطنت یہ ہی آشیاں مری ملکیت یہ ہی چار پر

جنہیں کہئے عشق کی وسعتیں جو ہیں خاص حسن کی عظمتیں
یہ اسی کے قلب سے پوچھئے جسے فخر ہو غم یار پر

مرے اشک خوں کی بہار ہے کہ مرقع غم یار ہے
مری شاعری بھی نثار ہے مری چشم سحر نگار پر

عجب انقلاب زمانہ ہے مرا مختصر سا فسانہ ہے
یہی اب جو بار ہے دوش پر یہی سر تھا زانوئے یار پر

یہ کمال عشق کی سازشیں یہ جمال حسن کی نازشیں
یہ عنایتیں یہ نوازشیں مری ایک مشت غبار پر

مری سمت سے اسے اے صبا یہ پیام آخر غم سنا
ابھی دیکھنا ہو تو دیکھ جا کہ خزاں ہے اپنی بہار پر

یہ فریب جلوہ ہے سر بسر مجھے ڈر یہ ہے دل بے خبر
کہیں جم نہ جائے تری نظر انہیں چند نقش و نگار پر

میں رہین درد سہی مگر مجھے اور چاہئے کیا جگرؔ
غم یار ہے مرا شیفتہ میں فریفتہ غم یار پر