جو طوفانوں میں پلتے جا رہے ہیں 
وہی دنیا بدلتے جا رہے ہیں 
نکھرتا آ رہا ہے رنگ گلشن 
خس و خاشاک جلتے جا رہے ہیں 
وہیں میں خاک اڑتی دیکھتا ہوں 
جہاں چشمے ابلتے جا رہے ہیں 
چراغ دیر و کعبہ اللہ اللہ 
ہوا کی ضد پہ جلتے جا رہے ہیں 
شباب و حسن میں بحث آ پڑی ہے 
نئے پہلو نکلتے جا رہے ہیں
 
        غزل
جو طوفانوں میں پلتے جا رہے ہیں
جگر مراد آبادی

