EN हिंदी
جو طوفانوں میں پلتے جا رہے ہیں | شیح شیری
jo tufanon mein palte ja rahe hain

غزل

جو طوفانوں میں پلتے جا رہے ہیں

جگر مراد آبادی

;

جو طوفانوں میں پلتے جا رہے ہیں
وہی دنیا بدلتے جا رہے ہیں

نکھرتا آ رہا ہے رنگ گلشن
خس و خاشاک جلتے جا رہے ہیں

وہیں میں خاک اڑتی دیکھتا ہوں
جہاں چشمے ابلتے جا رہے ہیں

چراغ دیر و کعبہ اللہ اللہ
ہوا کی ضد پہ جلتے جا رہے ہیں

شباب و حسن میں بحث آ پڑی ہے
نئے پہلو نکلتے جا رہے ہیں